آج کی شب تو کسی طور گُزر جائے گی
رات گہری ہے مگر چاند چمکتا ہے ابھی
میرے ماتھے پہ ترا پیار دمکتا ہے ابھی
میری سانسوں میں ترا لمس مہکتا ہے ابھی
میرے سینے میں ترا نام دھڑکتا ہے ابھی
زیست کرنے کو مرے پاس بہت کُچھ ہے ابھی

فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن


1968
وہی پرند کہ کل گوشہ گیر ایسا تھا
پلک جھپکتے، ہَوا میں لکیر ایسا تھا
اُسے تو، دوست کے ہاتھوں کی سُوجھ بوجھ ، بھی تھا
خطا نہ ہوتا کسی طور، تیر ایسا تھا
پیام دینے کا موسم، نہ ہم نوا پاکر !
پلٹ گیا دبے پاؤں ، سفیر ایسا تھا

مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن


2
1975